صحافی کا تعارف ۔۔ صحافت یا میں صحافی ہوں ۔۔۔ذرا سوچو!!!

کھینچوں نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
میرے ہم وطنو! آج جس موضوع کو لے کر آپ سے گفتگو کرنا چاہوں گا وہ اکثر آپ نے لوگوں سے سُنا ہو گا، اخبارات میں پڑھا ہو گا اور ٹیلی ویژن پر دیکھا ہو گا۔ہاں جی آپ بالکل ٹھیک سمجھے ’’صحافی اور صحافت‘‘ ۔یقیناًاس سے پہلے بہت سارے لکھاریوں نے بہت خوبصورت انداز میں اور عمدہ الفاظ کے چناوٗ کے ساتھ اس موضوع کو آپ کی نظر کیاہو گا۔
صحافت عربی زبان کا لفظ ہے جو صحیفہ سے نکلا ہے۔ صحافت وہ ہے جس کے قلم کی قرآن نے ’ن وَالقَلَمِ وَمَاےَسطُرُون‘ کہہ کر قسم کھائی ہے اور اس سے دوسروں کو تعلیم دینے کے لئے کہا ہے۔ صحافت پیغمبری پیشہ تو نہیں لیکن اُس کا ایک رُخ ضرور ہے اور اسے اپنانے والوں کے لئے پیغمبری صفات سے متصف ہونا ضروری نہ ہو تب بھی اس میں بنیادی بات اپنی ذات اور مفادات کی نفی ہے۔ صحافت معاشرے کی تیسری آنکھ اور ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ صحافت نام ہے اطلاعات تک رسائی اور اطلاعات کو لوگوں تک پہنچانے کا اور اُن کے دل کی بات کو زبان پر لانے کا، صحافت نام ہے تبصرے کا تجزیے کا نہیں، صحافت نہ تعریف کرنے کا نام ہے اور نہ کسی کو گالیاں دینے کا، نہ چمچہ گیری کرنے کا اور نہ بدتمیزی کا۔ صحافت نام ہے محنت اور مطالعے کا نہ کہ کام چوری اور جہا لت کا۔ صحافت نام ہے سچ کو تسلیم کرنے کا نہ کہ اَنا پرستی ، ضد یا اپنی بات پر اَڑے رہنے کا۔صحافت نہ کسی کے تعلقات کی بناء پر کسی کی تعریفیں کرنے کا ہے نہ کسی کے اشارے پر کسی کے خلاف مہم چلانے کا ۔صحافت نام ہے کسر نفسی کا، تکبر اور غرور کا نہیں۔صحافت نام ہے صحافت کا سیاست کا نہیں، صحافت نام قربانی دینے کا ہے لینے کا نہیں۔ صحافت نام ہے بحث کا ہٹ دھرمی کا نہیں۔صحافت نام ہے دلیل دینے کا فیصلہ کرنے کا نہیں۔صحافی کا کام ہے خبر کو نچوڑنا یا احکام کو جنجھوڑنا نہ کہ ہدف کو بھنبھوڑنا۔ سچ بولنا صحافی کا مذہب ہونا چائیے۔ غیر جانبداری اور عدم طرف داری صحافت کی سب سے بڑی خصوصیت ہے ۔ کسی بھی معاشرے کی تشکیل میں صحافت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ عوام میں سماجی اور سیاسی شعور بیدار کرنا، صحت مند اور نیک ر جحانات کو پروان چڑھانا، صالح معاشرے کی تشکیل کرنا ،آزادی کے جذبے کو فروغ دینا اور عوامی مشکلات و مسائل کی آئینہ داری کرنا ارباب صحافت کا بنیادی فریضہ ہے اور معاشرہ انہی خطوط پر استوار ہو جاتا ہے جن پر صحافت اسے کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ میرے ہم وطنو! کچھ ذکر آج کی صحافت کا ہوجائے۔صحافت کا عروج آج کے دور میں جتنا ہے ماضی میں کبھی نہیں رہا، صحافت کے بڑھتے ہوئے عروج کو دیکھتے ہوئے اکثر لوگ خواہش کرتے ہیں کہ ہم صحافی بنیں اور بن بھی جاتے ہیں کیونکہ صحافی بننے کا میرٹ بدل گیا ہے مگر صحافت کے اصولوں سے نا آشنا ہوتے ہوئے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم صحافی ہیں ۔جس طرح آج کل زیادہ تر سکولوں میں تعلیم کے علاوہ سب کچھ ہے ٹھیک اُسی طرح اکثر صحافیوں میں صحافت کے علاوہ سب پایا جاتا ہے ۔ایسے صحافی کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں۔جہاں صحافت کے اصولوں کو اپناتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے وہاں اکثر منفی سوچ رکھتے ہیں اور بجائے اِس کے کہ صحافت میں دوسرے سے آگے نکلیں ، دوسروں کو نیچا دکھانے میں اپنی تمام تر انرجی استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اپنے سینئرزکو عزت دینے کے بجائے جونئیرزکو سینئرز کی پہچان کروانے میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے صحافی دوسرے صحافی بھائی کے شانہ بشانہ چلنے کے بجائے اُسے کمزور کرنے کے طریقے سوچتے رہتے ہیں۔ صحافت کومضبوط کرنے کے بجائے صحافی کو طاقتور بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ اس سوچ سے بالاتر کہ صحافت سے ایسے صحافی اپنی پہچا ن کروائے ،بڑے فخر سے تعارف کروایا جاتاہے کہ میں صحافی ہوں۔ اس تعارف کے پیچھے چھپا مقصد اگر منفی ہو توصحافت کی آڑ میں فریق کے حلقوں کو لہولہان کر دیا جاتا ہے۔
میرے ہم وطنو!میری نظر میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی نہیں بلکہ سوچ کا ہے جس دن لوگوں کے سوچنے کا انداز مثبت ہو گیا اُس دن تمام مسئلے مسائل ٹھیک ہو جائیں گے۔ جو صحافی ہر حال میں حق اور سچ کا ساتھ دیتا ہے اور معاشرتی بگاڑ اور فساد کے خلاف اپنے قلم کی صلاحیتوں کو استعمال کرتا ہے، وہ قوم کا سرمایا ہے۔جس طرح ایک اُستاد اپنے طالب علموں کی تلخ باتوں کو نظر انداز کر کے اُس کی اصلاح کرنا چاہتا ہے ٹھیک اُسی طرح ایک صحافی کو بھی معاشرے کی تنقید کو نظر اندار کرتے ہوئے اس کی اصلاح کرنے کی شش کرنی چاہیے۔ صحافت ایک سماجی خدمت ہے سماج کی اچھائیاں اور برائیاں صحافت کے ذریعے ہی سامنے آتی ہیں۔ صحافت کو ایک ذریعہ معاش نہیں سمجھنا چاہیے۔صحافت کو اس طرح مضبوط کرنا چاہیے کہ اگر کسی صحافی کو کوئی تکلیف ہو تو تمام صحافی اُس کا درد محسوس کرسکیں۔ صحافی کو اپنی پہچان خود کروانے کی ضرورت محسوس نہ ہوبلکہ صحافت اُس کی پہچان بنے۔ اگرایسا ہو جائے گا تو پھر ہم بڑے فخر سے کہہ سکیں گے۔
سچ کہ کے کسی دور میں پچھتائے نہیں ہم کردار پہ اپنے کبھی شرمائے نہیں ہم

Share on FacebookTweet about this on TwitterShare on Google+