تحریر: سہیل شوکت کیانی
انسا ن اشر ف المخلو قا ت ہے اور دیگر خلا ئق پر اس شر فِ انسا نی کا با عث یقینا علم اور نُطق و بیا ن ہے۔ اگر یہ فکر صا ئب ہے تو پھر یہ بھی تسلیم کر نا پڑے گا کہ ذرائع علم بھی اتنے ہی قا بلِ احترا م ہیں جتنا ان ذرائع کا مو قف علیہ یعنی علم۔نسل ِ انسا نی میں با ہم علمی تو صیل و ترسیل کا سب سے بڑا ذریعہ استا د ہے۔ذہنی پراگندگی اور انتشا ر کا شکا ر استا د کبھی بھی اپنے فرا ئض کے ساتھ انصا ف نہیں کر سکتا ۔جیسا کہ سرکا ری سکو لو ں کے اسا تذہ کو زیا دتیوں کا سامنا ہے جو ان پر محکمہ تعلیم کی جا نب سے احتسا ب اور ایفیشینسی کے طو ر پر کی جا رہی ہیں۔یہاں ان چند نما یاں مظا لم کا اجما لی تذکر ہ کیا جا رہا ہے جن پر بے بس اور لا چا ر اسا تذہ شکو ہ کنا ں ہیں۔
محکمہ تعلیم کی جا نب سے ہیڈ ٹیچر ز کو سکو لو ں میں بچو ں کی حا ضر ی کو سو فیصد یقینی بنا نے کے لئے مجبو ر کر نا اور حا ضر ی میں کمی کے با عث محکما نہ ڈا نٹ ڈپٹ اور جرما نہ کیا جا نا
دور درا ز علا قوں میں تعینا تی پر خواتین اسا تذہ کو سخت کو فت کا سامنا ہے۔بی۔پی۔ایس 14 کے اساتذہ کو اپنی ما ہانہ تیس ہزار تنخو اہ میں سے سفری اخراجا ت میں سے صر ف گا ڑی کے کرائے کی مد میں تقریبا ً ایک تہا ئی یا آدھی تنخو اہ خر چ کر نی پڑتی ہے۔
اکثر سرکا ری سکو لو ں میں کلا س فو ر یعنی چو کیدار، ما لی اور نا ئب قا صد کے نہ ہو نے سے
بھی تد ریسی عملے کو مسا ئل درپیش ہیں۔
سکو ل کی عما ر ت کی مینٹینینس اور دیکھ بھا ل کے لئے بھی اسا تذہ کو ذمہ دار بنا یا جا تا ہے
جو کہ ایک اضا فی ڈیو ٹی ہے
ما نیٹرنگ کے عملے میں سے بعض کی رعونت اور معاملہ نا شنا سی کے با عث تدریسی ما حو ل میں
اکثر کشیدگی پا ئی جا تی ہے۔
اکثر سر کا ری سکو لوں میں ایڈمینسٹریشن کیلئے مخصو ص ملا زمین کے نہ ہو نے کے با عث تدریسی عملے
کو ایڈ مینسٹریشن کے اضا فی اور تھکا دینے والے امو ر بھی انجا م دینے پڑتے ہیں۔اوپر سے محکمہ تعلیم کی جا نب سے
اعلیٰ تدریسی کا ر کر دگی کے مطا لبے کی گردان بھی جا ری رہتی ہے۔
صر ف میٹر ک یا ایف اے پا س ما نٹیرنگ اہلکا ر جن کا بی۔پی۔ایس بمشکل پا نچ ہو تا ہے ایم اے۔ایم ایڈ۔ایم ایس سی اور
ایم فل درجے کے اسا تذہ کی ما نٹیرنگ کے نا م پر تو ہین بھی کر تے ہیں۔ اگر چہ یہ لو گ ایم ای اے کہلا تے ہیں یعنی
ما نیٹر نگ ایو یلیو ایشن اسسٹنٹ لیکن ان کا رویہ ایک سخت گیر ایڈ مینسٹر یٹنگ پا س کی طرح تو ہین آمیز ہو تا ہے۔ سرکا ری سکو لو ں میں سر کا ر ی طو ر پر اسا تذہ اور بچو ں کا تنا سب ایک اور چا لیس کا ہے یعنی چا لیس بچو ں پر ایک استا د۔
اگر کسی سکو ل میں یہ تنا سب پو را نہ ہو تو محکمہ تعلیم کی جا نب سے ہیڈ ٹیچر کو تنا سب پو را کر نے کے لئے مز ید بچو ں کو دا خل کر نے کا با قا ئدہ ہدف دیا جا تا ہے۔ہد ف پو را نہ کر نے کی صو ر ت میں افسرا ن با لا کی جا نب سے ہیڈ ٹیچر ز کی تذلیل کی جاتی ہے۔تدریسی عملے کو اس طر ح کے بیسیوں مسا ئل کا سا منا ہے۔
قا رئین کرا م۔۔۔کیا ایک زندہ معا شر ہ اس استحسا ل کی اجا زت دیتا ہے؟
کیا ہم لو گ اس قدر فکر ی اور اخلا قی افلا س کا شکا ر ہیں کہ اہم تر ین معا شر تی معما روں کے سا تھ ان کی اصلا ح احوال کہ لئے ایک قد م بھی نہ بڑھا سکیں؟
نا لے بلبل کے سنو ں اور ہمہ تن گو ش رہو ں
ہمنوا۔۔میں بھی کو ی گل ہو ں کہ خا مو ش رہو ں
ہمار ا محترم وزیر تعلیم اور انکے محکمے سے مطا لبہ ہے کہ اساتذہ ذی وقا ر کو جملہ مسا ئل سے نجا ت دلا کر فر و غِ علم میں اپنا مثبت اور واجب کردار ادا کریں۔