چمن میں دیدہ ور تحریر۔ سرفراز ملک

چمن میں دیدہ ور
تحریر۔ سرفراز ملک
پوری انسانی تاریخ چھان لیجئے آپ یقینا اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ غیر معمولی شخصیات کی ایک شناخت یہ بھی ہوا کرتی ہے کہ وہ عموماً متنازعہ فیہہ ہوتی ہیں۔ہمارے ضلع کی تاریخ میں ڈاکٹر غلام حسین بھی ایک ایسی ہی غیر معمولی شخصیت کے حامل رہے ہیں جن کے طرز حیات، افکار نظریات اور ان کی صاف گوئی نے ان کے خلاف بے رحم محاز کھول دئیے۔ہمارے ریاکار معاشرے نے جو مصنوعی قدریں تراش لی ہیں ان میں پروان چڑھے ہوئے لوگ کھری اور عریاں صداقت، سننے کیلئے قطعی تیار نہیں۔
ہمارے سامنے ایسی کئی خود نوشت سوانح عمریاں نہیں ہیں جن کے لکھنے والوں کے کردار کاغذ پر کچھ ہیں اور ہماری نظروں کے سامنے ان کا حلیہ دوسرا ہے۔ڈاکٹر غلام حسین صاحب کو اس ظاہر پرست، خوشامد پسند اور کرپٹ معاشرے میں سیاست کرنے کا ہنر نہیں آیا۔ وہ اپنے الیکشن نعرہ ”نہ جھکنے والا نہ بکنے والا“ پر تاحیات قائم رہے انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں بھی پارٹی سے غداری نہیں کی، وہ اس وقت کے جرنیلوں کے آگے جھک کر سنیئروزارت اور عہدوں کا مزہ لے سکتے تھے لیکن انہوں نے جلا وطنی قبول کی۔ان کے ہم عصر اور بعض ان کے جونیئر سیاستدانوں میں ایسے کتنے ہی مصلحت پسندلوگوں کے نام لیئے جا سکتے ہیں، جنہیں حکومتوں نے ان کی وفاداری تبدیل کرنے کے عوض اعلیٰ عہدوں اور وزارتوں سے نوازا۔
جہلم شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین انتہائی زرخیززمین ہے بلا شبہ جہلم کو نامور شخصیات کی سرزمین کہا جا سکتاہے۔لالہ لجپت رائے، اندر کمال گُجرال، سُنیل دت، درشن سنگھ آوارہ، تنویر سِپرا، جوگی جہلمی، اقبال کوثر اور پھر سیف الملوک کے خالق میاں محمد بخش صاحب کو کون بھول سکتا ہے۔اس دھرتی نے بڑی بڑی باکمال ہستیوں کوپروان چڑھایا۔جہاں یہ سرزمین وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کیلئے شیر دل نوجوان پیدا کر رہی ہے جو وطن عزیز پر جانیں قربان کرتے جا رہے ہیں، جہاں اس دھرتی نے سپہ سالارجنرل آصف نواز جنجوعہ جیسے شیر پیدا کیئے دوسری طرف پاک سرزمین کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے سے 10گنا بڑے دشمن کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہو کر دشمن کے دانت کھٹے کرتے ہوئے جام شہادت حاصل کر کے نشان حیدر پاکستان آرمی کے سب سے بڑے اعزاز پانے والے میجر محمد اکر م شہید(نشان حیدر) بھی پیدا کیئے، اور جہلم کی اسی ہی دھرتی یعنی یونین کونسل نکہ خورد کے گاؤ ں جمرغال میں 26جون 1936کوآنکھ کھولنے والے محترم غلام حسین بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہیں۔ یہ علاقہ جہلم کی انتہائی پسماندہ علاقوں میں سے ایک ہے جہاں تعلیم اور روزگار کیلئے کوئی وسائل نہیں۔مجھے فخر ہے کہ مجھے اس ہستی کے بارے میں کچھ لکھنے کا اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔میرا تعلق بھی جہلم کی اسی یونین کونسل سے ہے اور میرے دادا، ان کے بعد میرے تایا اور اب میرے والد محترم کیپٹن غلام جیلانی جمر غال کے نمبردار ہیں۔ہم اہل علاقہ کیلئے انتہائی فخر کی بات ہے ایسی عظیم ہستی ہمارے علاقہ میں پیدا ہوئی۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا یہ شعر ان کیلئے موزوں ترین ہے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ورپیدا
لڑکپن سے ہی میری اٹھک بیٹھک میرے والد محترم کے ہم عمر لوگوں سے ہوتی تھی، بڑوں میں بیٹھ کر جو سیکھنے کو ملتا ہے وہ کتابیں پڑھ کر آپ حاصل نہیں کر سکتے۔ میرامحترم ڈاکٹر غلام حسین سے ہر وقت قریبی رابطہ رہتا ہے، جب بھی وہ جہلم تشریف لاتے ہیں میں اپنا کاروبار، فیملی سب کو بھول کر دیوانہ وار ڈاکٹر صاحب کے ساتھ رہتا ہوں، جب بھی میں اسلام آباد جاوٗں میں اپنے ماموں جو میرے سسر بھی ہیں ان کی گھر کی بجائے میں اپنے محترم لیڈر اور میری پسندیدہ شخصیت ڈاکڑغلام حسین صاحب کے گھر کا رخ کرتاہوں، وہ بھی مجھے اپنے بچوں جیسا پیار دیتے ہیں۔ ان کی قربت سے میں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ سیکھا اور شاید میری کامیابی میں بھی ان کا بہت بڑاہاتھ ہے۔ڈاکٹر صاحب بہت غصے والے ہیں لیکن آج تک مجھے ان کی کبھی بھی ڈانٹ نہیں پڑ ی، وہ اپنے اندر ایک انسائیکلوپیڈیا سموئے ہوئے ہیں۔ان کا ایک ایک لفظ انمول ہے وہ جہاں کہیں بھی اور جس جگہ بھی جائیں ہر چیز کا مشاہدہ باخوبی کرتے ہیں، ان کی محفل میں مزاح کا عنصر حاضرین کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتا رہتا ہے۔وہ جہاں عوام کی خدمت میں سکون محسوس کرتے ہیں وہ ڈاکٹر صاحب کو اپنے ارد گرد عوام کے چہروں پر پھیلی ہوئی اس یژمردگی اور مایوسی کا شدت سے احساس ہوتا ہے جو ظالمانہ نظام کے سبب اس ملک کے عوام کا مقدر بن چکا تھا اور اس حال میں ڈاکڑ صاحب آج بھی جب اپنے گاؤں جمرغال جاتے ہیں گاڑی بھر کر ادوایات ساتھ لے کر جاتے ہیں اور مریضوں کا فری چیک اپ، فری ادویات کے ساتھ ساتھ عوام کے چہروں پر موجود مایوسی کے تاثرات کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے کسی تیر بہدف نسخہ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ آج بھی وہ اپنی عوام کی ہر ممکن اور ہر سطح پر
مدد کرنے میں کوشاں ہیں۔
میں جہلم میں SLSکالج کے نام سے ایک انسٹیوٹ کے ذریعے علم و ہنر کی شمع روشن کرنے میں کوشاں ہوں، جہلم کا تعلیمی میدان میں پاکستان کے پہلے 5شہروں میں شمار ہوتا ہے،جہلم میں شرح خواندگی تقریبا 80فیصد ہے اور اس تعلیمی انقالاب کے بانی بھی محترم ڈاکٹر غلام حسین ہی ہیں۔ وہ جہلم میں تعلیمی انقلاب اس وقت لے کر آیا جب وہ پہلی دفعہ ممبر قومی اسمبلی بنے 1972میں ڈسٹرکٹ جہلم میں صرف 18ہائی سکول تھے انہوں نے 2سال میں 18مزید ہائی سکول، 138مڈل سکول، 400پرائمری سکول، 4نئے کالج بنوائے اسی تعلیمی انقلاب کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا ضلع جہلم نہ صرف پنجاب بھر میں بلکہ اسلام آباد کے بعدپاکستان بھر میں شرح خواندگی میں دوسرے نمبر پر ہے۔
میرے لیئے یہ انتہائی اعزاز کی بات ہے کہ ڈاکڑ غلام حسین صاحب نے اپنی کتاب پبلش ہونے سے پہلے اپنی کتاب کے بارے میں گفت وشنید اور آراء کیلئے خصوصی طور پرمجھے اسلام آباد اپنے گھر پر مدعو کیا۔ کئی گھنٹوں ان کی کتاب کے مختلف پہلوؤ ں پر میں نا چیز اپنی آرا ء دیتا رہا۔ میں نے سوشل میڈیا پر ڈاکڑ صاحب کے ساتھ تصاویر بنا کر شیئر کی اور اس کتا ب کا ذکر کیا، دنیا بھر سے لوگ بے تاب ہو گئے اور انہوں نے مجھ سے پوچھنا شروع کر دیا کہ یہ ان کی کتاب کب منظر عام پر آئے گی، اور کب وہ پڑھ سکیں گے۔میں پر امید ہوں کہ ان کی پہلی تصنیف سیاسی ایوانوں میں ہلچل مچانے کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کیلئے ایک انتہائی موٹیویشنل کتاب ثابت ہو گی۔فرخ سہیل گوئندی صاحب نے جس ذاتی لگن اور دلچسپی سے اس کتاب کے ہر مرحلہ پر خصوصی نظر رکھی ہے وہ نا قابل فرموش ہے امید ہے یہ کتاب جمہوری پبلیکیشنزکا ایک تاریخی شاہکار ہو گا۔
تو سلامت رہو ہزار برس ہر برس کے ہوں دن پچاس سال

Share on FacebookTweet about this on TwitterShare on Google+